غالب ندیمِ دوست ہے۔۔

غالب ندیمِ دوست ہے۔۔ Cover Image

چند اپنی سرحد کی حدود سے باہر اور چند اپنے گھر کے آس پاس کی خبروں نے میرے دل میں آگ سی لگائی۔ یہ آج صبح کی بات ہے۔ ہزاروں خیال کہ جن کا ایک ہی مقصد تھا میرے ذہن میں چکر کاٹ رہے تھے۔ میں خود سے پوچھ رہا تھا کہ کیوں؟ میرے اندر نہ جانے کہاں سے اسداللہ غالب کا یہ مصرع مجھے تسلی دینے کے لئے آیا

 "شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک"

اگر آپ کا فیس بک اردو بولتا ہو تو جب کھولیں پوچھتا ہے، آپ کے ذہن پر کیا چل رہا ہے۔ میں اکثر جواباً یہ کہہ کر آگے بڑھتا ہوں کہ تجھے اس سے کیا لیکن آج سوچا کہ روز روز نظر انداز کر کے اس کا دل دکھانا اچھا نہیں۔ تو کہہ دیا 

"شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک" 

کئی بے قرار روحیں کہ جن کی نظروں میں یہ بات آئی اس کو پسند کرنے لگیں۔ الله مغفرت کرے غالب چچا کہ آپ کئی جلتے دلوں کا سہارا ہیں۔ 

چند ہی منٹوں بعد اس پوسٹ پر کچھ عزیزوں نے تبصرہ کیا۔ بحث کی بنیاد ایک نکتہ تھا۔ وہ نکتہ یہ کہ اس مصرعے کے خالق نے "ہونے تک" لکھا ہے یا "ہوتے تک"۔ اس مسئلے کا کیا حل نکلا پوسٹ پر موجود ہے۔ لیکن اس نکتے پر بحث سے جو نکتہ میں نے دریافت کیا اس کی طرف آپ کو متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔ غالب کیسی ہستی ہے۔ ملا ہو، رند ہو، عالم ہو، جاہل ہو، کسی نہ کسی صورت میں سب کے دلوں پر غلبہ ہے۔ میں غالب کے " ندیم دوست" کو کبھی کبھی غالب ہی سمجھ بیٹھتا ہوں۔ مجھے بہت بار غالب سے بوئے دوست آئی ہے۔ 

 

ان کی روح پر سورہ فاتحہ کی تلاوت کریں۔